Monday, January 16, 2012

بٹلہ انکاؤنٹر سے رشدی تک





21 SAFAR-UL-MUZAFFAR 1433 AH SRINAGAR 17 JANUARY 2012

بٹلہ انکاؤنٹر سے رشدی تک
فہم وفراست کا دامن نہ چھوُٹے
محمد انیس الرحمٰن خان
 گزشتہ دنوں سے دلّی کے اُردو اخبارات میں دو سرخیاں ہر روز نمایاں نظر آرہی ہیں ایک رُشدی کی آمد اور دوسرا بٹلہ ہائوس کا انکائونٹر۔بے شک  یہ دونوں ہی باتیں مسلمانوں کے لئے بے حد اہم اور جذباتی ہیں لیکن ان دونوں باتوں سے حکمتِ عملی اور دانائی کے تحت اگر مقابلہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔گزشتہ دنوں یوگ گرو رام دیو پر دلّی میںپریس کانفرنس کے دوران جو کچھ بھی کامران صدیقی کے ذریعہ کیا گیا اس کی تقریباً تمام مسلمانوں نے مذمت کی ہے اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ اس سے کامران صدیقی یا بٹلہ ہائوس کے مسلمانوں کو صرف بدنامی ہی ہاتھ لگی ہے ۔فائدہ تو پورا پورا یوگا رام دیو کا ہوا ہے جسے شہر ت اور ہمدردی کا ایک آسان سا موقع ایک مسلم نوجوان نے جذبات میں بہہ کر مہیا کرادیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رام دیو کوئی منسٹر یا افسر ہیں؟ رام دیو سے مسلمانوں کی ہمدری کی توقع بھی کیسے کی جاسکتی ہے ؟پھر ان سے اس قسم کا سوال کیا معنی رکھتا ہے جو پریس کانفرنس کے دوران اُن سے کیا گیا تھا۔ یہ بات تو گزشتہ ہی دنوں صاف ہوگی تھی کہ رام دیو آر ایس ایس کے کارکن ہیں جنہیں  دُنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کے آئین اور فوج پر یقین ہی نہیں ہے ۔اسی لئے تو انہوں نے اپنی فوج بنا نے کی بات کی تھی ۔قارئین کو یاد ہو گا کہ یوگ گرو رام دیو کو را م لیلا میدان میں جو بے عزتی اور شرمندگی اُٹھانی پڑی تھی اس کی مثال اس عظیم ملک میں نہیں ملتی کہ ایک اَدھ ننگا رہنے والا یوگی عورتوں کے لباس میں اس میدان سے راہِ فرار اختیار کرے۔حالانکہ رام دیو میدان میں پورے ملک سے کرپشن کو ختم کرنے اور بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کے لئے حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کا موڈ بنا کر اس دعویٰ کے ساتھ بھوک ہڑتال پر بیٹھا تھا  کہ سارا ملک میرے ساتھ ہے اور پھر اس ناقابلِ فہم طریقے پر وہ نو دو گیا رہ ہوگئے ۔اب پریس کانفرنس میں بلیک سیاہی حملہ کرکے رام دیو کو پھر سے ایک ہیروبنانے کا کام کرنا کون سی عقل مندی ہے ؟
دوسری طرف رُشدی کی ہندوستا ن آمد پر طرح طرح سے احتجاج کا طریقہ پورے ملک کے مسلمانوں کے ذریعہ اپنایا جارہا ہے ، جو ان کا آئینی اور جمہوری حق بھی ہے مگر اس میں بھی ہمارے جذبات عقل و خرد پر حاوی ہوتے نظر آتے ہیں ۔جیسے گزشتہ برسوں میرٹھ کے ایک ایم ایل اے صاحب نے بیرونی ملک کے ایک گستاخِ رسول صلعم کارٹونسٹ کے سر پر انعام دینے کا اعلان کیا تھا جو بعد میں ان کے لئے پریشانی کا باعث بنا۔اسی طرز پر رشدی کی متوقع ہندوستان آمد پر ایک معروف تنظیم کے سربراہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ ’’رشدی کو جوتا مارو اور لاکھوں کمائو‘‘مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی باتوں سے اصل مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اگر ہوتا ہے تو ضرور اس قسم کی اسکیموں کا اعلان کیا جانا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ٹھنڈے دل و دماغ سے اس قوم کے سیاسی ومذہبی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔بے شک رُشدی کی آمد ہند کو رُکوانا یہ جذبۂ ایمانی کا تقاضہ ہے مگر حکمت ِ عملی اور دانائی بھی اسی مذہب اور ایمان کا ایک حصہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے ۔رشدی نے اپنے بکواس  ناول میں کیا لکھا ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو معلوم ہے۔  اُس کے واہیات کا جواب کیا ہوسکتا ہے اور کیسے دیا جاسکتا ہے یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے ؟ممکن ہے کچھ لوگوں نے اس کی تردید میں جواباً کتابیں بھی لکھی ہوں ،میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا ۔صرف ایک تجویز رکھنا چاہتا ہوں کہ جذباتی قسم کے اعلانات کے بجائے قوم کوتعلیمی اور فکری محاذ پربیدار کیا جائے ، مسلمانوں کی نئی پود میں مقابلہ اور مسابقہ کی صلاحیت پیدا کی جائے ،ان رقومات کو مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ کیا ئے تو اعلیٰ اور فیصلہ ساز عہدوں پر ہماری قوم کے نوجوان نظر آئیںگے کہ خودبخود رُشدی جیسے لوگوں کو اتنی مہنگی شہرت(جو اصل میں بدنامی ہے) نہ ملے گی ۔تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہندوستان میں مسلمانوں کو جوبھی نقصان اُٹھانا پڑا ہے اس میں ہمارے وقتی جذبات کا خاصا عمل دخل رہا ہے جو دائمی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا رہا ہے۔اس لئے ضرورت اس با ت کی ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے حکمت ِ عملی اور دانشمندی سے کا م لیا جائے ۔آج کل انتخابات کا زمانہ ہے مسلمانوں کو سیاسی پارٹیوں سے اپنے مطالبات منوانے کا اچھا موقع ہے ، ان سے متحدہ طور پر کچھ دائمی فوائد کی بات کی جائے۔ جذبات میں آئے تو اپنا ہی نقصان ہوگا جس کا سیدھا فائدہ مسلم دشمن پارٹیوں کو ہوگا۔
anis8june@gmail.come

No comments:

Post a Comment